خبرگزاری اهل‌بیت(ع) - ابنا

شنبه ۳ آذر ۱۴۰۳
۱۵:۴۹
در حال بارگذاری؛ صبور باشید
جمعه
۲۸ اسفند
۱۳۸۸
۲۰:۳۰:۰۰
منبع:
شیعیت نیوز
کد خبر:
206268

دہشت گردی اور ملت جعفریہ کی مسلسل نسل کشی

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پریوں تو سب ہی تشویش میں مبتلا ہیں لیکن اس سلسلے میں ملت جعفریہ کی تشویش اور عدم تحفظ کا احساس اب سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے اور اب لوگ نسل کشی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

آآ

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل ناصر عباس جعفری کراچی پریس کلب میں مقامی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور ملت جعفریہ کی مسلسل نسل کشی کے خلاف اور بالخصوص پاراچنار میں طالبان دہشت گردوں کی جانب سے  کئے جانے والے محاصرے کو توڑنے کیلئے تین اکتوبر کو اسلام آباد میں قومی عزاداری کانفرنس منعقد ہوگی۔
دوسری جانب جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ ملت جعفریہ کو انصاف فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ تمام دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا تعلق ایک خاص مکتب فکر سے ہے اور ان کی بالواسطہ سرپرستوں اور گزشتہ سانحات کے مجرموں کی گرفتاری سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاراچنار شدید محاصرے میں ہے جہاں حکومت واضح طور پر دہشت گردوں کا ساتھ دے رہی ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ بھی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف جنرل کیانی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت سے پاراچنار کے عوام مایوس ہوچکے ہیں۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ افغانستان سے طالبات کی دراندازی روکی جائے، کوئٹہ القدس ریلی میں شہید ہونے والے افراد کے لئے حکومت معاوضے کا اعلان کرے، یوم عاشور، یوم چہلم اور 21 رمضان کے جلوسوں میں کی جانے والی دہشت گردی سے متعلق جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض قوتیں جان بوجھ کر ملت جعفریہ کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں جس کے پیش نظر یہ تصور زور پکڑ تا جارہا ہے کہ گویا یہ اہل تشیع کی نسل کشی ہورہی ہے۔
پاکستان میں شیعہ مسلک کے لوگوں کے نسل کشی کا تصور 30 برس قبل اس وقت کے فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق کی حکومتی مشینری کی نگرانی میں چلنے والے مدارس، مذھبی مراکز اور مساجد کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں پروان چڑھا اور بتدریج اس پر عمل درامد شروع کیا گیا اور آج طالبان اور ان کے مقامی ہمنواؤں کی شکل میں شیعہ مسلک کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مشغول ہے اور نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے حساس اداروں اور ایجنسیوں میں موجود ان کے ان کے ہمدرد انہیں ہر طرح سے سپورٹ کررہے ہیں۔
پاراچنار سے تعلق رکھنے والے شیعہ عمائدین اور رہنماؤں کا کہنا ہے کا پاراچنار پچھلے چار برسوں سے طالبان اور ان کے حامی مقامی قبائل کے محاصرے میں ہے اور سرکاری فورسز بھی وہاں موجود ہیں لیکن اس محاصرے کو ختم کرانے کے لئے آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور اوپر سے المیہ یہ کہ جب بھی مقامی لوگ طالبان کا محاصرہ توڑنے کے لئے اپنے طور لشکر کشی کرتے ہیں سرکاری فورسز میدان میں کود پڑتی ہیں چنانچہ پچھلے دنوں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا۔
بہرحال ملت جعفریہ کے قائدین اور سرکردہ شخصیات کے بیانات اور الزامات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور اگر قوم میں فوج، عدلیہ اور حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا تو اس کے ممکنہ نتائج کو سنھبالنا شاید آسان نہ ہوگا۔

........

/110