ابنا: ایک دہشت گرد مارنے کے لئے50 پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کی شرح ہے جب کہ اوباما کے دور کے پہلے 9ماہ کے ڈرون حملے بش کے دور کے آخری 3سالوں کے کل حملوں سے زیادہ ہیں۔ برطانوی اخبار ’گارجین‘ کی رپورٹ کے مطابق2010کا سال آئی پیڈ یا کسی اور نام سے نہیں بلکہ ڈرون کے نام سے جانا جائے گا۔اوباما نے صدارت کا حلف اٹھاتے ہی 23جنوری 2009کو پاکستان میں پہلے ڈرون حملے کا حکم دیا جس میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے چار عرب جنگجوؤں کے ساتھ قبائلی سربراہ اور اس کے خاندان کے چار افراد کو ہلاک کیا گیا جس میں5سال کابچہ بھی شامل تھا۔ نوبل امن انعام رکھنے والے صدر اوباما نے اس کے بعد کبھی مڑ کے نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنے دور صدارت کے پہلے 9ماہ میں بش کے دور کے آخری تین سالوں سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔واشنگٹن کے ایک تھنک ٹنک کے مطابق 2010میں ڈرونز حملوں میں دگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا اور یہ قتل عام جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان حملوں میں سینکڑوں دہشت گرد ہلا ک کیے گئے ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ اس میں بے گناہ اور معصوم شہریوں کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ایک دہشت گرد کی نسبت دس شہریوں کو ہلاک کرنے کی شرح ہے۔ جنوری 2006 سے اپریل 2009کے درمیان القاعدہ کے 14دہشت گرد اور687معصوم پاکستانی شہری ان ڈرونز حملوں میں ہلاک کر دیے گیے جو ایک دہشت گرد کے مقابلے 50شہریوں کے ہلاک کرنے کی شرح ہے۔پاکستان کی اکثریت افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں ان ڈرونز حملوں کی مخالف ہے، تاہم پاکستانی حکام نجی طور پر امریکی ڈرونز حملوں کی حمایت کرتے ہیں۔
...........
/110